۵ آذر ۱۴۰۳ |۲۳ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 25, 2024
علامہ ساجد نقوی 

یوم ولادت نواسہ رسول کے موقع پر قائد ملت جعفریہ پاکستان کا کہنا تھا کہ حضرت امام حسنؑ نے مسلمانوں کے اجتماعی مفادات کے حصول اور اسلام کے استحکام کے لئے باہمی رواداری اور صلح و محبت کا ماحول بناکر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے 15 رمضان یوم ولادت حضرت امام حسنؑ کے موقع پر کہا ہے کہ نواسہ رسول اکرم (ص) حضرت امام حسنؑ جوانان جنت کے سردار ہیں۔ آپؑ کے علم، حلم، جلالت اور کرامت میں عکس رسول اکرم (ص) واضح طور پر نظر آتا ہے۔ پیغمبر اکرم (ص) نے اپنی بیٹی کی خواہش پر امام حسن مجبتیٰؑ کو سرداری عنایت کی۔ حضرت علیؑ کے بعد آپؑ امامت پر فائز ہوئے، آپؑ کاشمار خلفائے راشدین میں سے آخری خلیفہ راشد کے طور پر بھی ہوتا ہے، آپؑ نے جس انداز میں ظاہری زندگی بسر فرمائی اور امن و اخوت اور صلح و محبت کی لاثانی روایات قائم کیں ان سے سیرت رسول اکرم (ص) کی عکاسی ہوتی ہے۔

علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا کہ منقول ہے پیغمبر اکرم (ص) ممبر پر تشریف فرما تھے تو امام حسنؑ کو دیکھتے ہوئے کہا کہ میرا یہ بیٹا مسلمانوں کا سردار ہے اور خداوند تعالیٰ اس کے ذریعے دو گروہوں کے درمیان صلح قائم کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ حضرت امام حسنؑ نے مسلمانوں کے اجتماعی مفادات کے حصول اور اسلام کے استحکام کے لئے باہمی رواداری اور صلح و محبت کا ماحول بناکر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ صلح نامہ میں قرآن و سنت کی پیروی، فریق دوئم کا کسی کو اپنا جانشین نامزد نہ کرنا، عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ اور ان کے محفوظ مستقبل کی شقیں اہمیت کی حامل ہیں اور ان سے سبق حاصل کرکے مسلمان انتشار و افتراق، جنگ و جدل اور قتل و غارت گری سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

علامہ ساجد نقوی نے مزید کہا کہ نواسہ رسول حضرت امام حسنؑ کی سیرت و کردار سے الہام حاصل کرتے ہوئے ہم نے بھی وطن عزیز میں اتحاد و وحدت کی جدوجہد کو آگے بڑھایا، جس سے نہ صرف ارض پاک انتشار و افتراق سے محفوظ رہا بلکہ پاکستانی عوام بھی اخوت کی لڑی میں پرﺅے جاچکے ہیں۔

علامہ ساجد نقوی نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اتحاد بین المسلمین کا فروغ اور اخوت و وحدت ہمارا دینی و اسلامی فریضہ ہے۔ اسلام کی بقاء اور امت کی وحدت کے لئے ہماری جدوجہد جاری ہے۔ ا

نہوں نے یہ بات زور دے کر کہی کہ آج کے اس کٹھن دور میں جب مسلمان فرقہ واریت، مسلک پرستی، دہشت گردی اور اخلاقی جرائم میں مبتلا ہیں، وقت کا تقاضا ہے کہ ان مسائل سے نبرد آزما ہونے اور اختلافات کو جڑوں سے اکھاڑنے کے لئے باہمی صلح و رواداری کو فروغ دیا جائے اور فروعی اختلافات کو نظر انداز کرتے ہوئے سینکڑوں مشترکات پر بلاتفریق فرقہ و مسلک جمع ہوکر اسلام و مسلمین کو متحد کیا جائے، اسی سے دین اسلام مستحکم ہوگا اور مسلمان خدا کی دنیا کے وارث ہوں گے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .